وزیراعظم کا بغیر سود قرضوں کی فراہمی ،غربت کے خاتمے کیلئے وژن پاکستان پروگرام لانے کا اعلان

 


اسلام آباد (این این آئی) وزیراعظم عمران خان نے بغیر سود قرضوں کی فراہمی اور غربت کے خاتمے کیلئے وژن پاکستان پروگرام لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو خود مختار بنانے کیلئے غربت میں کمی اور ملکی آمدنی میں اضافے کیلئے ہر ممکن قدم اْٹھائیں گے،ملکی آمدنی نہ ہونے کے باعث بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا اور شرائط ماننا پڑتی ہیں،جس ملک کا حکمران طبقہ کرپٹ ہو تو وہاں کے معاشی حالات خراب ہوتے ہیں،ریکارڈ پیداوار کے باوجود ہمیں گندم درآمد کرنا پڑتی ہے ، آج کے ایشین ٹائیگرز 60 کی دہائی میں پاکستان کی طرف دیکھتے تھے ،اگر بینک قومیائے نہ جاتے تو ہم بہتری کی طرف جاتے ،ہر خاندان کو صحت کارڈ فراہم کرینگے جس سے وہ کسی بھی ہسپتال سے 10 لاکھ روپے تک علاج مفت کروا سکے گا،اسلام آباد کے کنونشن سینٹر کو ایکسپو سنٹر بنانا اچھی تجویز ہے کابینہ اراکین سے مشاورت کروں گا۔وزیراعظم عمران خان یہ باتیں اسلام آباد میں تین روزہ آئی سی ای سی نمائش کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ وزیراعظم نے ملک میں غربت کے خاتمے کیلئے وژن پاکستان پروگرام لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جس ملک کا حکمران طبقہ کرپٹ ہو تو وہاں کے معاشی حالات خراب ہوتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو خود مختار بنانے کیلئے غربت میں کمی اور ملکی آمدنی میں اضافے کیلئے ہر ممکن قدم اْٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ملکی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اور شرائط ماننا پڑتی ہیں اس لئے پاکستان کو خود مختارملک بنانے کیلئے بہت ضروری ہے کہ غربت کا خاتمہ کیا جائے اور ملک کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔وزیراعظم نے کہا کہ وژن پاکستان یہ ہے کہ سب سے پہلے لوگوں کو غربت سے نکالیں کیونکہ 40 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے، میرا وژن ہے کہ ان کو کیسے اوپر اٹھایا جائے۔انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے ہم اپنے ملک کی دولت کیسے بڑھائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج جو ایشین ٹائیگرز ہیں وہ 60 کی دہائی میں پاکستان کی طرف دیکھ رہے تھے ،ہم ان کیلئے ماڈل تھے ،انہوں نے ہم سے بہت کچھ سیکھا ،اس زمانے میں ہمارے پاس ٹاپ بینکرز تھے اور پاکستان کو ایشیا کے ٹائیگر سمجھا جاتا تھالیکن ہم نے اس ملک کو نیچے جاتے دیکھا۔انہوں نے کہا کہ اس ملک میں صلاحیت ہے، اگر صلاحیت نہ ہوتی تو کسی وقت میں اوپر نہ جا رہا ہوتا، اگر بینک قومیائے نہیں جاتے تو ہم بہتری کی طرف جاتے ،اب پاکستان کو واپس وہاں لے جانے کیلئے کے ا قدم اٹھانے ہیں، اسی کے ساتھ ہمارا ملک خود دار بنے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ حکمرانوں کی کرپشن سے ملک غریب ہوجاتا ہے، ملک کا ایک چھوٹا سا طبقہ امیر ہوگیا لیکن ملک غریب ہوتا رہا اور اب ہمیں گندم کی ریکارڈ پیداوار کے باوجود گندم درآمد کرنا پڑتی ہے، ہمیں قرضے لینے پڑتے ہیں،ہم 20 دفعہ آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں شوکت خانم کیلئے فنڈز جمع کرنے باہر جاتا تھا تو امیر ترین پاکستانی ہوتے تھے، پیسہ ان کے پاس ہوتا تھا، تصور نہیں کرسکتے کہ پاکستان کو امداد لینا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ جن ممالک میں حکمران طبقہ کرپٹ ہوں وہاں ایسے حالات ہوتے ہیں، وسائل کے باوجود غربت ہوتی ہے اور تھوڑا سا طبقہ امیر ہوتا ہے، تو اس کو کیسے تبدیل کرنا ہے، یہ میرا ایک بڑا وژن ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ آخری بات قانون کی بالادستی ہے، طاقت کی بالادستی کے بجائے انصاف کرکے بڑی سطح پر تبدیلی آئے گی، نیچے سے لوگوں کو اٹھائیں گے اس کے بڑے طریقے ہیں، اس کیلئے احساس پروگرام لے کر آئیں گے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے مثال بنے گی، ایسا کام کر رہے ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم 9 تاریخ کو بڑے دھوم دھام سے اس پروگرام کا افتتاح کرینگے، اس پروگرام میں وہ 40 فیصد طبقہ جو نیچے ہے اس کے ہر خاندان کے ایک فرد کو ٹیکنیکل تعلیم دی جائیگی، خاص کر آئی ٹی کے شعبے میں جلدی تربیت حاصل کرکے پیسے کمانا شروع کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر خاندان کو صحت کارڈ دیا جائیگا جس کے تحت وہ کسی بھی ہسپتال میں 10 لاکھ روپے تک علاج مفت کروا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ تیسری چیز بلاسود قرضے دیئے جائیں گے، اگر شہر میں ہیں تو دکان اور کوئی کاروبار اور دیہات میں ہیں کسان کیلئے سود کے بغیر قرضہ ملے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کم لاگت پر گھر دیا جائیگا اور ان خاندانوں کو مائیکرو فنانس کے ذریعے ہم ان کو پیسے دیں گے، ان کے پاس گھر بنانے کیلئے پیسے نہیں ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کچی آبادیاں بن جاتی ہیں، کراچی تقریباً 40 فیصد کچی آبادی بن چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے قانون نکالنے کیلئے بڑی جدوجہد کی، جب تک قانون نہیں ہوگا کہ اگر کوئی قسط نہیں دیتا تو بینک ایکشن نہیں لے سکے گا تو وہ قرضے نہیں دیں گے، اسی لیے پاکستان میں ہاؤس فنانسنگ کا تصور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صفر اعشاریہ 2 فیصد گھروں کیلئے قرضے دیئے جاتے ہیں، بھارت میں 10 اور ملائیشیا میں 30 فیصد، یورپ اور امریکا میں 80 فیصد قرضے دیئے جاتے ہیں، اس قانون کے تحت پاکستان میں پہلی دفعہ موقع ملے گا کہ وہ بینک سے قرضے لے کر گھر بنا سکے اور حکومت بھی ان کو سبسڈی دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہاؤسنگ کے شعبے میں بڑا انقلاب آرہا ہے اور اسے پھر عام لوگوں کو اپنی چھت ملے گی اور اسے اہم یہ صنعت چلے گی اور شہروں میں سب سے زیادہ روزگار تعمیرات سے ملتی ہے اور ٹیکس کے ذریعے بھی سرمایہ جمع ہوگا۔وزیراعظم نے کہا کہ اب میری توجہ ہوگی کہ ملک میں برآمدات کیسے بڑھانی ہیں اور درآمدات کا متبادل کیسے تیار کرنا ہے، کیونکہ جب پاکستان میں زیادہ ڈالر نہیں آئیں گے اور ملک میں خسارہ رہے گا تو آگے نہیں بڑھے گا، اگر ملک کو آگے بڑھنا ہے، دولت میں اضافہ کرنا ہے تو برآمدات میں اضافہ کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کو آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی سے بچانا ہے اور اس کے لیے ہم درخت لگائیں اور سبزہ بڑھائیں کیونکہ جنگلات زیادہ ہوتے ہیں تو بارشیں ہوتی ہیں، آلودگی کم ہوتی ہے اور اس سے درجہ حرارت کم رہتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ راولپنڈی شہر کنکریٹ سلیب بن گیا ہے حالانکہ جب ہم بچپن میں یہاں آتے تھے تو یہ بڑا ہرا اور آلودگی سے پاک شہر ہوتا تھا، میں پڑھ رہا تھا کہ راولپنڈی میں 1914 میں 4 فٹ برف پڑی تھی، اس شہر کا موسم بالکل مختلف تھا۔انہوں نے کہا کہ جب ایک ایسا شہر کنکریٹ میں تبدیل ہوگا تو موسم تبدیل ہوگا اور اس کے بڑے اثرات ہوتے ہیں اور اس سے سیلاب بھی آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہر جگہ بتایا ہوا ہے کہ ہر شہر کا ماسٹر پلان بنے گا اور گرین بیلٹ پر تعمیرات نہیں ہوں گی کیونکہ اگر ہم نے اپنی گرین بیلٹ کو نہیں بچایا تو فوڈ سیکیورٹی کا بڑا مسئلہ بنے گا۔ قبل ازیں وزیراعظم نمائش کے ہر سٹال پر گئے اور شرکاء سے گفتگو کی۔انہوں نے نمائش کے منتظمین سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کی تجویز ہے کہ اسلام آباد کے کنونشن سینٹر کو ایکسپو سینٹر بنایا جائے، یہ ایک اچھی تجویز ہے، اس پر میں اپنے کابینہ اراکین سے مشاورت کروں گا۔





Ref

اشتہار

اشتہار